کہیں اک بھول سے جنت نکل جاتی ہے قدموں سے
Poet: عادل زیدی By: Faizan, Rawalpindiکہیں اک بھول سے جنت نکل جاتی ہے قدموں سے
کہیں اس کو بھلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں آنسو بہانے سے بصارت لوٹ آتی ہے
کہیں گھر کو لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دریا کی موجیں فیصلہ کرتی ہیں ظالم کا
کہیں دریا پہ جانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں یہ خوئے خوں ریزی عقیدوں کو بدلتی ہے
کہیں مردے جلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں ایڑی رگڑنے سے زمیں چشمے اگلتی ہے
کہیں گردن کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں صحراؤں کی بنجر زمیں سونا اگلتی ہے
کہیں گندم اگانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں دو انگلیوں سے فیصلہ ہوتا ہے خیبر کا
کہیں بازو کٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں چلو میں غازی کی حکمراں ڈوب جاتے ہیں
کہیں حاکم بنانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں زور سخن قوموں کی تقدیریں بدلتا ہے
کہیں فوجیں بلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں خاموشیاں بھی جیت لیتی ہیں محاذوں کو
کہیں توپیں چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں غم تا قیامت دوست کر دیتا ہے اپنوں کو
کہیں خوشیاں لٹانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں اپنے سخن سے اک بہن دل جیت لیتی ہے
کہیں خنجر چلانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
کہیں تنہائیاں رتبے عطا کرتی ہیں انساں کو
کہیں محفل سجانے سے بھی صاحب کچھ نہیں ہوتا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






