ہمیں تو سانس بھی لینے کی مہلت نہ ملی
تیرے دروازے پہ نظر آنے کی اجازت نہ ملی
کیسے کیسے خوابوں نے بہکایا ھے سرشام ہمیں
کمرے کو پھولوں سے مہکایا مگر راحت نہ ملی
الجھے الجھے سے نظر آتے ھو اکثر ھم کو
تیرے ھر رنگ کو اپنایا مگر چاھت نہ ملی
تیرے مہ خانے کی طرف اکثر میں چلا آتا ھوں
جام نے ھوش بھلایا مگر قربت نہ ملی
تیری چاھت میں جلے خاک ھواؤں میں اڑی
اپنا نشاں ایسے مٹایا کہ کہیں تربت نہ ملی