کہیں راہوں میں یادوں کے خزانے بھول آئے ہیں
نئے ساتھی ملے ہم کو پرانے بھول آئے ہیں
ملاقاتوں کی چھاؤں اب نہیں ملتی کہیں ہم کو
ملاقاتوں کے سارے ہم ٹھکانے بھول آئے ہیں
بڑے خوش فہم ہوتے تھے بڑے ہی وہم ہوتے تھے
سبھی بچپن کی الفت کے زمانے بھول آئے ہیں
جدائی کی غزل اب گنگناتے ہیں اکیلے میں
تری فرقت میں قربت کے ترانے بھول آئے ہیں
کوئی رونق نہیں اب تو سبھی ویران رستے ہیں
فسانے بن گئے ہیں ہم دسانے بھول آئے ہیں
کوئی نخمیر اب فتراک میں دیکھا نہیں وشمہ
نطر کے برسر صحرا نشانے بھول آئے ہیں