کیا بتائیں کتنا لطفِ زندگی پاتا ہے دل
جب نگاہِ ناز تیری زد پہ آجاتا ہے دل
کون ہے غم خوار اپنا شامِ غم اے بے کسی
دل کو بہلاتا ہوں میں یا مجھ کو بہلاتا ہے دل
آ کے ان کی یاد کچھ تسکین دیتی ہے مجھے
جب شبِ فرقت کی تنہائی میں گھبراتا ہے دل
ہائے وہ منظر نہ پوچھو جب بحسنِ اتفاق
ملتی ہیں نظروں سے نظریں دل سے مل جاتا ہے دل
کیوں نہ سمجھوں آپ کو میں سو بہاروں کی بہار
سامنے جب آپ آتے ہیں تو کھِل جاتا ہے دل
کوئی جادہ ہے، نہ منزل ہے، نہ کچھ قیدِ مقام
اپنی دھن میں اک طرف مجھ کو لیے جاتا ہے دل
جانے کیوں اخترؔ مری آنکھوں میں آجاتے ہیں اشک
جب وہ رنگیں داستاں ماضی کی دہراتا ہے دل