کیا بهی جائے تو اظہار کب، کہاں، کیسے
جو نالے شعر نہ سمجها گئے، زباں کیسے
ابهی بهی کتنے کٹھن امتحان گزرے ہیں
کسے خبر کہ هو کل کے بهی امتحاں کیسے
هوا ملی ہی نہیں عمر کے سفینے کو
کراتا پار ہمیں تار بادباں کیسے؟
ہمارا وقت بهی چهینا گیا تها کاغذ بهی
سو لکهتے پوری، سزاوں کی داستاں کیسے؟
بنا کے بوڑها اک جوان کو محبت نے
بتائیں کیا کہ چهین لی ہیں مستیاں کیسے
کچه اپنا دل ہی بڑتے غم کا جانے ہے "ماہی"
پیئے ہیں اشک، ضبط کی ہیں سسکیاں کیسے