اِک ہُنر تھا، کمال تھا کیا تھا
مُجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا
تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
دِل میں ڈر تھا، ملال تھا کیا تھا
برق نے مجھ کو کردیا روشن
تیرا عکسِ جلال تھا کیا تھا
ہم تک آیا تو مہرِ لطف و کرم
تیرا وقتِ زوال تھا کیا تھا
جس نے تہہ سے مجھے اُچھال دیا
ڈوبنے کا خیال تھا کیا تھا
جس پہ دِل سارے عہد بُھول گیا
بُھولنے کا سوال تھا کیا تھا
تتلیاں تھیں ہم اور قضا کے پاس
سُرخ پھولوں کا جال تھا کیا تھا