کیا حال ہمارا پوچھتے ہو، آنسووں میں نہایا کرتے ہیں
جب یاد تمہاری آتی ہے، اٹھ اٹھ کے بہایا کرتے ہیں
تیرے جانے کے بعد او سنگدل، اپنا تو حال ہوا ایسا
چاک گریباں پھرتے ہیں، اور پتھر کھایا کرتے ہیں
صبح سویرے جب بھی کاگا، منڈیر پہ آ کے بولتا ہے
تیرے آنے کی امیدوں پہ، ہم گھر کو سجایا کرتے ہیں
ہماری وفا کی انتہا دیکھ، نہیں کرتے کسی کو شریک غم
جب شب فراق ہوتی ہے، چراغوں کو بجھایا کرتے ہیں
کبھی ہوتی نہیں تاریکی، قبروں پہ اہل محبت کی
سنا ہے کہ وہاں جگنو، دیپ جلایا کرتے ہیں
میرے دل کی دنیا چھوڑ کر، کب کا پردیس جا بسا ناصر
مگر تنہائی میں اس کے قہقہے، اب تلک ستایا کرتے ہیں