اس کا تصور بھی کھو دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
میں بھی اس کی طرع رو دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
اک مدت سے خود کو تھامے ہوئے ہیں ہم
ہجر کی کہانی سنا دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
کہیں تو اسے بھی ہم سے کچھ کہنے کو ہوگا
یہ خیال بھی مٹا دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
بُرے شَر سے بچنے کی دعا بھی رد ہی گئی
محبت بھی چھوڑ دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
تیری بَستی کے چند سو لوگوں میں اگر
تیرا قصہ سنا دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
معلوم ہے اسے میرا اس کی گلی میں انا جانا
حقیقت سے پردہ اٹھا دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی
تیرے ہجر کے ہر زخم سے واقف ہوں میں
درد سارے ہی لکھ دوں تو کیا رہ جاتا ہے باقی