درد کی لکھتا رہا ہے یہ کہانی کیا سے کیا
دن دِکھائے فرد کو آنکھوں کا پانی کیا سے کیا
سب کے سب برباد کر لینے میں حصّہ دار تھے
ترش لہجہ، ٹیڑھی چالیں، نوجوانی، کیا سے کیا
مَیں کہاں احسان ان کے بھول سکتا ہوں کبھی
کیا کرم فرمائیاں تھیں، مہربانی کیا سے کیا
میں نے اپنے عہدِ برنائی میں کی ہیں محنتیں
برف، قلفی، تِل کے لڈّو، شتربانی کیا سے کیا
دیس کو کس موڑ پر چھوڑا ہے لا کر غاصبو!
اور دعوے کر رہے ہو منہ زبانی کیا سے کیا
عاشقی کی "عین" سے بھی ہم ابھی نا آشنا
کر گئے ہیں سسّیؔ پنّوںؔ، ہیرؔ، ہانیؔ کیا سے کیا
ہم کو دعویٰ تھا بڑا آہن مزاجی کا کبھی
کر گئی جادو مگر یہ رُت سہانی کیا سے کیا
ہم نے طوفانوں میں کشتی کو سمندر میں رکھا
وقت نے دیکھی ہماری بادبانی کیا سے کیا
ہم حقیقت آشنا ہوتے تو ہیں حسرت رشیدؔ
پر دکھائے ہم کو دنیا آنی جانی کیا سے کیا