کیا عنوان دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Poet: جانو By: Janu, Dhahran-KSAکچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا
دل کو, فرزانہ ,بھلانا نہیں آتا
یاد کرو زرا
فون پہ خلوص محبت کا وہ والہانہ
وہ تیرے خطوط کی " تیزگام "
نئے سال و جنم دن پر - وہ تحائف کا یلگارانا
وہ پھولوں سے پرونا میرا نام
کبھی "ساجن " لکھنا، اور کبھی " جان "
وہ جھیل کے پتوں پہ کبھی " W " لکھنا اور کبھی " N "
کبھی ھاتھ کی چوڑیوں سے بنانا میرا نام
وہ کیا ہوا، وہ خلوص، وہ پاکیزا محبت
جس پہ تجھے ناز، مجھے ناز تھا
جسے پرکھا تو نے اور دیا اک گلاب سا نام
جسنے تیری زندگی کا مفہوم بدلا
تو "خوشبو" تھی جس "روز" کی
کیا پوچھا کبھی اس کا پتہ
کس حال میں ہے وہ ،اور وہ ہے کہاں ؟
ہر پل تجھے ڈھونڈا، ہرممکن، ہر مکاں
یقیں ہے، تجھے ہوئی کچھ غلط فہمیاں
کیسے بتاؤں اپنی بے ربط تحریر سے
کہ زندگانی کس طرح برباد ھو تی رہی
پھر بھی وہی خلوص لیے جو اب بھی ھے
پھر رھا ھوں اب بھی برسوں سے، تلاش میں تیری
کیوں کہ تیرا اس میں " خلوص" شامل تھا
اتنا عیاں اشارہ ھے میرے اشعارمیں
پا لو مجھے، گر درد سمجھو
کہ بہت قریب ھوں اک "میل" پر
منتظرِ فردا
وہی "جانو"
تمھارا ، برسوں کا بھٹکا اک ستارہ
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






