کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آتا
دل کو, فرزانہ ,بھلانا نہیں آتا
یاد کرو زرا
فون پہ خلوص محبت کا وہ والہانہ
وہ تیرے خطوط کی " تیزگام "
نئے سال و جنم دن پر - وہ تحائف کا یلگارانا
وہ پھولوں سے پرونا میرا نام
کبھی "ساجن " لکھنا، اور کبھی " جان "
وہ جھیل کے پتوں پہ کبھی " W " لکھنا اور کبھی " N "
کبھی ھاتھ کی چوڑیوں سے بنانا میرا نام
وہ کیا ہوا، وہ خلوص، وہ پاکیزا محبت
جس پہ تجھے ناز، مجھے ناز تھا
جسے پرکھا تو نے اور دیا اک گلاب سا نام
جسنے تیری زندگی کا مفہوم بدلا
تو "خوشبو" تھی جس "روز" کی
کیا پوچھا کبھی اس کا پتہ
کس حال میں ہے وہ ،اور وہ ہے کہاں ؟
ہر پل تجھے ڈھونڈا، ہرممکن، ہر مکاں
یقیں ہے، تجھے ہوئی کچھ غلط فہمیاں
کیسے بتاؤں اپنی بے ربط تحریر سے
کہ زندگانی کس طرح برباد ھو تی رہی
پھر بھی وہی خلوص لیے جو اب بھی ھے
پھر رھا ھوں اب بھی برسوں سے، تلاش میں تیری
کیوں کہ تیرا اس میں " خلوص" شامل تھا
اتنا عیاں اشارہ ھے میرے اشعارمیں
پا لو مجھے، گر درد سمجھو
کہ بہت قریب ھوں اک "میل" پر
منتظرِ فردا
وہی "جانو"
تمھارا ، برسوں کا بھٹکا اک ستارہ