کیا مسیحا کی نظر ہو گئی
زندگی اور مختصر ہو گئی
کیا ذکر اس رسوائی کا کریں
جو عزت سے معتبر ہو گئی
زندگی تیرے ساتھ حسیں ہو گی
اک دعا منظور اگر ہو گئی
تجھ کو کیسے خبر ہو اس حال کی
ہر کسی کو جس کی خبر ہو گئی
اک جرم تھا یا آرزو تھی یاد نہیں
زندگی کتنی در بدر ہو گئی
زندگی تو شرمندگی لگتی ہے اب
کیا کہوں کیسے بسر ہو گئی
ہر دعا لب پے سجی رہ گئی
جب پوری ان کی عمر ہو گئی
کچھ نہیں یا سب دے دے اے خدا
ہر دعا اب معتبر ہو گئی
اس امید پے سویا رہا شاکر
کوئی بتائے گا کہ سحر ہو گئی