کیا پو چھتے ہو کیسے کٹی ر ا ت درد کی
یادوں کا تھا ہجو م اور بارات د رد کی
جن کا کبھی پڑ اؤ تھا نظرو ں کے آس پاس
و ہ لو گ دل کو دے گئے سو غات د رد کی
جو زخم بھی ملا اُسے رکھا سنبھال کر
ہم عمر بھر کر یں گے مداَرا ت درد کی
ہر وقت ہر مقام پہ رہتا ہے ساتھ ساتھ
دل کو پسند آ ئی یہی بات درد کی
ایسا بھی کیا ملال مرِے ضبطِ حال کا
دامن کہاں چھڑا کے چلی رات درد کی
گر تمکو اِ تنا اُسکی اُد اسی کا تھا خیا ل
کیوں تم نے اُس سے جا کے کہی بات درد کی
شا ید ہی بچ سکے گا مرِی چا ہتو ں کا گھر
د یو ار تو گرا گئی برسات درد کی
ملتی کسی کسی کو ہے اپنے نصیب سے
بنٹتی نہیں ہے مفت میں خیراَت درد کی