بے درد زمانے میں
انصاف ڈھونڈتی رہی
کافر تھے شہر کے لوگ سارے
بے وجہ ُان میں ایمان ڈھونڈتی رہی
پلکوں کی حد توڑ کر گرا تھا اک اشک
ُاس اشک کی خاطر میں قصہ تمام ڈھونڈتی رہی
بہت تھی حسرتیں میری بھی ، پر جب
ُاسے دیکھا تو اپنے منہ میں ہی زبان ڈھونڈتی رہی
بے جان سہی مگر کچھ تو تھا ُان لفظوں میں
جن کے اندر میں اپنی ذات ڈھونڈتی رہی
جسے دیکھنے کی مدت سے حسرت تھی
ُاسے سامنے پایا تو پھر نقاب ڈھونڈتی رہی
کیا کر رہی تھی آخر بیان میری خاموشی ُاسے
جسے چھپانے کی خاطر میں اک بات ڈھونڈتی رہی