آنکھ میں بس تماشہ رہ گیا
خواب تھا جو ادھورا رہ گیا
تیرا شہر تو ثابت ہوا شہرِ خرافات
دھوپ سے الجھا ہوا سایہ رہ گیا
کھلکھلا کر یوں پیچھے ہٹی بادِ نسیم
اک واقعہ ہوتے ہوتے رہ گیا
آہی گئے برسات کے دن لوٹ کر
تیرے چہرہ کا رنگ کچا رہ گیا
راستے اک دوجے سے یوں جدا ہوئے
دل میں فقط ملن کا نقشہ رہ گیا
شام کا سنسان میلا دیکھ کر
غیب سے آیا ہوا مصرع رہ گیا
ہونے والا تھا اک حادثہ ہو گیا
اب سننے سنانے کو کیا رہ گیا
صبح ہوگی کہانی بنے گی کوئی نئی
گزرا ہوا سب سے بڑا سانحہ رہ گیا
یہ بھی درست محبت اک سزا ہی تو ہے
پھر بھی ٹوٹا ہوا کوئی سلسلہ رہ گیا
سحر کے ہونے کا بھروسہ لئے
کیا ہوا جو میں تنہا رہ گیا