کیسے بھلا کہوں وہ سخن آشنا نہیں
وہ بھی اسے پتہ ہے جو میں نے کہا نہیں
خوش فہم کس قدر ہے میری نگاہ منتظر
راہ دیکھتی ہے اسکا جو گھر سے چلا نہیں
ویسے تو ہر طرف تیری آہٹ سنائی دے
ڈھونڈوں اگر تو تیرا کہیں نقش پا نہیں
تعلیم ہے مقام ہے عزت ہے محتشم
اسکی کمی ہے ورنہ میرے پاس کیا نہیں