کیسے ممکن بھلا اس سے رہائی ہے
وہ تو روح سے جیسے شناسائی ہے
تیرے بعد صدا ساتھ دیا ہے اس نے
تجھ سے اچھی اداسی نے نبھائی ہے
یاد رکھتا ہے کون بھلا حسیں لمحے
زندگی جن کو صدا ستائی ہے
اس شہر میں جیسے وفاؤں سے بغاوت ہو
احساس میں ہر شخص نے دیوار اٹھائی ہے
زندگی یوں بھی اتنی آساں نہ سہی
سب سے دشوار مگر زہر ء جدائی ہے
انتہاۓ الفت بھی انتہاۓ شوق بھی
بے وجہ نہیں تیری پذیرائی ہے
موسم کا سحر یا شام ہے ایسی عنبر
تیری یاد مگر آج بہت آئی ہے