کیسے کہیں کہ دل لگی دل کو ہی لگ گئی
کہاں سے منکر وفا کو یہ بیماری لگ گئی
وہ جو حسن و جمال کے قائل کبھی نہ تھے
وبال حسن کی انہیں بھی اسیری لگ گئی
اے خوبرو تو نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا
اب دیکھ مجھے بھی تیری بیماری لگ گئی
آزاد پنچھی روبہ فلک محو شہ پری کو
صیّاد تیرے وار کی اسیری لگ گئی
جو شاہ گداؤں سے کنارا کش رہا کرتے تھے
قسمت کا ستم ان کو بھی فقیری لگ گئی
اب گردش افلاک نیا کام کر گئی ہے
فقیروں گداؤں کو بھی امیری لگ گئی
بیمار عشق نازنیں کا مجھ سے یہ کہنا کہ
میری نظر سے ان کو یہ دل پذیری لگ گئی
اور ہم کہ اس خیال سے تادیر خوش رہے
ان کو یہ خبر کہ ان پہ نظر میری لگ گئی
عظمٰی اس کائنات اور مخلوق کائنات کو
کیوں اور کس طرح سے دل گیری لگ گئی