کیسے کیسے خواب دکھاۓ آ نکھوں نے
جانے کتنے دھوکے کھاۓ آ نکھوں نے
چہروں سے اندازہ کرنا مشکل ہے
کتنے گہرے راز چھپاۓ آ نکھوں نے
آج بڑی ویران دکھایٔ دیتی ہیں
کل مستی کے جام لٹاۓ آ نکھوں نے
اِک پل میں ہی سارے چکنا چوُر ہوۓ
شیشے کے جو محل بناۓ آ نکھوں نے
اب جا کر احساس ہوا ، سب جھوٹے تھے
جتنے بھی منظر دکھلاۓ آ نکھوں نے
اک پل مڑ کر دیکھا جانے والے نے
ساون بھادوں اشک بہاۓ آ نکھوں نے