سنا ہے عوام یہاں کی بہت غیور ہے
پھر کیو ں میرا وطن زخموں سے چُور ہے
قدرت کی ہر نعمت سے یہ مالامال ہے
لوگوں میں ہے دوریاں ،دشمن کی چال ہے
کہتا ہے ہر کوئی وہ اپنے فرض پہ مامور ہے
پھر کیو ں میرا وطن زخموں سے چُور ہے
رہبر ہمارے رہزن کا روپ دھار کر
جی رہے ہیں خودی پے، شب خون مار کر
اعلان ہے ہر خطہ مسرت سے بھرپور ہے
پھر کیو ں میرا وطن زخموں سے چُور ہے
ننگے ہیں سر،بھوک سے بچے ہیں بے قرار
پھولے نہیں سماتے ارباب اختیار
ایوانوں میں ہر طرف، چراغاں ہے نور ہے
پھر کیو ں میرا وطن زخموں سے چُور ہے
ہر روز اک نیا قہر ٹوٹ رہا ہے
دامن آس کا ہاتھوں سے چھوٹ رہا ہے
دلوں میں ہے کینہ، ذہنوں میں فتور ہے
سلیم اس لئے میرا وطن زخموں سے چُور ہے