دل میں اب اور کیا ہے جسے ڈھونڈتی ہے خلق کافی ہے دل کو ایک شکست انا کا دکھ کیوں ان دنوں سوار ہے دو کشتیوں میں دل چاہت اک اجنبی کی تو اک آشنا کا دکھ