اے جاتے موسم یہ تو بتا
کیوں آس ادھوری رہتی ھے
ہر لمحے آنسو بہتے ہیں
کیوں ان سے دوری رہتی ھے
زخموں سے کرب چھلکتا ھے
اور خون جگر سے رستا ھے
آنکھوں سے سمندر بہتا ھے
کیوں پیاس ادھوری رہتی ھے
سپنوں میں آگ برستی ھے
اور روح ہمیشہ سلگتی ھے
من آنگن میں وحشت چھائی ھے
یہ کیسی مجبوری رہتی ھے
پھر شام کو دیپ جلاتے ہیں
اور رات کو پھول سجاتے ہیں
جانے کیوں چاند سلگتا ھے
اور ان سے دوری رہتی ھے