پھر یہ کیسی مصلحت ہے قافلہ سالار سے
کیوں تعلق مجھ سے بڑھ کر ہے ترا اغیار سے
دیکھنی ہو میری صورت تو چلے آنا کبھی
میری چلتی ہے کہانی مصر کے بازار سے
میرے حصے میں ہیں کانٹے ، میرے حصے میں خزاں
پھر مجھے لینا ہی کیا ہے پھول کی مہکار سے
اب پیارے لگ رہے ہیں درد کے موسم سبھی
تجھ کو پانے کی یہ خواہش میری خواہش ہی رہی
تیری سنگت میں گزارے دن سبھی بیکار سے
چبھ رہی ہے مجھ کو اپنی ہار لیکن دیکھنا
جیت لوں گی ایک دن میں تجھ کو اپنے پیار سے
زندگی کے کرب وشمہ مجھ پہ بھاری ہوگئے
مجھ کو سارے لگ رہے ہیں تیر سے ، تلوار سے