پھر یہ کیسی مصلحت ہے قافلہ سالار سے کیوں تعلق مجھ سے بھڑ کر ہے ترا اغیار سے دیکھنی ہو میری صورت تو چلے آنا کبھی میری تو اب ہے کہانی مصر کے بازار سے