تم پاس رہ کر بھی دور رہے
گناہ کر کے بھی بے قصور رہے
مرضی سے آتے رہے
مرضی سے جاتے رہے
مگر جب کبھی ہم نے
بلایا تو ہمیشہ مصروف رہے
عید کے چاند کی طرح ہمیں
رخ دیکھانے کہ لیے ترساتے رہے
اور کبھی ہمیں پتھر سمجھ کر
ٹھوکر لگاتے رہے
ہماری محبت پے ہمیں
اور آزماتے رہے
یوں تو لکھے بہت
وعدے تم نے مگر
ہر موڑ پے اپنے
وعدے مٹاتے رہے
جاناں ! یہ میری زندگی تھی
جسے تم کھولنا سمجھے لگئے
کبھی اوپر سے نیچے
گراتے رہے اور کھبی
آسمان پے بٹھاتے رہے
تمہیں میں بےوفا لکھوں
یا پھر باوفا لکھوں
جبکہ تم تو مجھے اپنے
ہزاروں رنگ یکھاتے رہے
جبکہ جان گئے تھے تم بھی
کہ تمہارے ساتھ سے ہی
زندہ ہوں میں پھر کیوں
مجھے تنہا چھوڑ کر جاتے رہے