کیوں موت کے خواب سجا لیے آنکھوں میں
ابھی تو زندگی ہم سے ملی بھی نہیں
کیوں ٹوٹ کے چاہا ُاسے اس طرح لکی
کہ چاہیت کو بندگی ملی بھی نہیں
پتھر کے ُبت پے یہ اعتبار کی نشانی ہیں
ریزہ ریزہ ہوئی میری ذات اور پیار کی اک بوند ملی بھی نہیں
کانٹوں میں کیسے بسر کی ہو گئی زندگی ُاس نے
جس بد نصیب کو پھولوں کی اک شام ملی بھی نہیں
ہاں ! ہم نے جینے کے خواب دیکھے تھے لکی
مگر اک مددت سے نیند ہمیں ملی بھی نہیں
میں ُاس پرندے کو کس طرح ُاڑا دوں
پر ہونے کے باوجود آزادی جیسے ملی بھی نہیں
رونقیں میسر ہو گئی تمہیں جاناں
اندھیروں کے بعد روشنی ہمیں ملی بھی نہیں
تیرے اک انکار نے میرا تخت ہی پلٹ دیا
پھر ہمیں ویسی شہنشائی کہیں ملی بھی نہیں
میری روح تجھ میں ہیں پھر تجھ سے گلہ کیا کرتی
بچھڑ کے تجھ سے ہمیں آب حیات کہیں ملی بھی نہیں