گاؤں مٹ جائیں گے ، شہر جل جائے گا
زندگی تیرا چہرہ بدل جائے گا!
ہم غریبوں کی اس بھیڑ میں تم کہاں
یہ کلف دار کرتا مسل جائے گا
آگ پہ رقص کرنے میں یکتا ہے تو
برف پہ پاؤں تیرا پھسل جائے گا
میں اسی فکر میں رات سویا نہیں
چاند تاروں کو سورج نگل جائے گا
اب اسی دن لکھوں گا دُکھوں کی غزل
جب میرا ہاتھ آہن میں ڈھل جائے گا
کچھ لکھوں مرثیہ ، مثنوی یا غزل
کوئی کاغذ ہو پانی میں گل جائے گا
میں اگر مسکرا کے انہیں دیکھ لوں
قاتلوں کا ارادہ بدل جائے گا