گانٹھ رشتوں کی سلجھانے میں لگے ہیں
روٹھے ہوئوں کو منانے میں لگے ہیں
وقت مختصر ھے اور کام ان گنت۔
بوجھ دل سے کوئی ہٹانے میں لگے ہیں۔
کوئی وعدہ وفا کر کے بھول گیا ھے شاید!۔
پھر سے یاد اس کو دلانے میں لگے ہیں۔
وہ جو روٹھا ھے ہمسے جھوٹا بہانہ کر کے۔
ہاتھ جوڑ پھر اس کو منانے میں لگے ہیں۔
درد کے مارے ادھر ہم مر رھے ہیں۔
اور وہ دیکھ ہمکو مسکرانے میں لگے ہیں۔
آہ ! پہلے سے وقت اپنا برا چل رہا ھے۔
اور وہ مزیدمصیبتیں بڑہانے میں لگے ہیں
انتظار کی گھڑیاں طویل نظر آ رہی ہیں۔
اسلئے چراغ امید ہم جلانے میں لگے ہیں۔
جب کہ جانتے ہیں وہ حالت زار اپنے۔
پھر کیوں وقت اپنے گنوانے میں لگے ہیں؟
ابھی بھی ان کو ہم پر بھوسہ نہیں شاید !!!
شاید اسلیے وہ صبر اپنے آزمانے میں لگے ہیں۔
اسد عشق کی گتھی سلجھانا نہیں کچھ آساں۔
مدت ہوئی جواز کوئی ڈھونڈھ پانے میں لگے ہیں۔