نجانے زندگی مجھے کس
مقام پہ لے آئی۔
جن پہ مان تھا اپنوں کا
سبھی رشتے سبھی ناطے
اجنبی سے لگتے ہیں۔
اپنوں اور غیروں کے
سب دلاسے پرانے لگتے ہیں
میں بکھرے خوابوں کی
سبھی بیتے عذابوں کی
داستاں سناؤں کس کو
مسیحا بناؤں کس کو
کہ جب چا ہے مجھے
آزمانے لگتے ہیں۔
گردش دوراں کا شکوہ
فضول ہے شاہین!
کہ چاند ستارے بھی محالف
لگتے ہیں۔
جو رکھوں پاؤں دریا میں
کنارے بھی دور جانے
لگتے ہیں