گردشِ ایام نے کچھ ایسا ستم ڈھایا
کچھ ہم نے سیکھنے کا مادہ ہی کم پایا
جس سانچے میں ڈھلنا تھا نہیں ڈھل پائے
جو کچھ حاصل کرنا تھا نہیں کر پائے
جس قدر وقت نے بدلا ہم بدل گئے
وقت کے ساتھ ساتھ ہم بھی بدل گئے
تقدیر نے جس سانچے میں ڈھالا ڈھل گئے
دل کو جس کی چاہت تھی وہ نہیں پایا
دل کو جس سے راحت تھی اسے گنوایا
کوئی تدبیر کارگر نہ رہی
کوئی تقریر پر اثر نہ رہی
کیا بتائیں زندگی میں کیا کھویا کیا پایا
جو چاہا وہ نہ پایا جو نہ چاہا وہ پایا
ہر خوشی کا حصہ امید سے کم پایا
کیسا کیسا ہم نے نصیب سے غم پایا
مسکراہٹ کے بدلے آنکھوں میں نم آیا
جب خوشیوں کے لمحوں میں یاد تیرا غم آیا
گردشِ ایام نے کچھ ایسا ستم ڈھایا
کچھ ہم نے سیکھنے کا مادہ ہی کم پایا