اب کیا کہیں کہ کیا تھی کیسے گزر گئی
اچھی بری گزر گئی گزر گئی جیسے گئی
تھی اُس کے اختیار میں اپنی یہ زندگی
جس طرح اُس نے چاہی یہ ویسے گزر گئی
رنج و الم کی ہر شبِ ہجراں گزر گئی
درد بھی تو اُس کی دین تھی اپنی حیات میں
بن اُس کے بھی تو درد تھی درد میں گزر گئی
ساتھ تمہارے غم دوستی بھی بِیت گیا
تو کیا ہوا جو آہ و فغاں میں گزر گئی