گزرے کسی پر ناگوار وہ حرکت نہیں ہوئی
میری آداوں کو مجھ سے شکایت نہیں ہوئی
جب تک کسی حَسن سے محبت نہیں ہوئی
ہم کو تو ستم اٹھانے کی عادت نہیں ہوئی
ہم نے ان کے نام پر بجھیے تھے خط پر خط
ان کو ہی جواب دینے کی فرصت نہیں ہوئی
چہرے پر ایک حسن کے ٹھہری رہی جو نظر
اب آنکھوں سے اور کوئی شرارت نہیں ہوئی
جس کو ہرا دیا تھا وہ بھی تو اپنا بھائی تھا
اب ہو کر بھی فتح یاب کوئی مسرت نہیں ہوئی
اب ہر ایک کی زبان پر تو ہمارا ہی نام تھا
اب ہم بدنام جو ہوۓ تو کیا شہرت نہیں ہوئی
اب ظالم کا ساتھ دینے کو آۓ تھے تمام لوگ
اب تو مظلوم پر کسی کی عانیت نہیں ہوئی
اب نشائی لب کے وقت بھی جو یاد آۓ کربلا
محسوس مجھ کو پیاس کی شدت نہیں ہوئی
اوروں کو مارنے کے لیے تو خود کشی نہ کر
اب یہ بذدلی کی موت بھی شہادت نہیں ہوئی
اب تو پلے پیسہ نہ تھا جہیز دنیے کے واسطے
اب تو بیٹی غریب باپ کی رخصت نہیں ہوئی
اب مہانت کے ساتھ ساتھ عبادت بھی کیجیۓ
اگر مہانت نہیں ہوئی تو عبادت بھی نہیں ہوئی
مسعود
لو اب تو میں لے آیا آپ سب کے لیے ایک نیی غزل
سبکو تھا انتظار میرا کیا میری شرکت نہیں ہوئی