سنو سہیلی
وہ عہدِ رفتہ
دھواں دھواں تھا ہر ایک رستہ
نشانِ منزل کہیں نہیں تھا
امید آنگن میں دھندلکے تھے
مری نگاہوں میں خواب موسم ٹھہر چکے تھے
کہ جن کی تعبیر پر تھی بندش
بھٹک رہی تھی میں وحشتوں میں اذیتوں میں
وہیں ملا تھا سکون پیکر
گئی رتوں میں جو خواب سا تھا
جو شاعری کی کتاب سا تھا
سوال بن کر جواب سا تھا
وہ دھوپ رت میں سحاب سا تھا
سنو سہیلی
وہ ایک لمحے میں سال جیسا
مصوروں کے خیال جیسا
وہ جگنوؤں کی مثال جیسا
وہ روٹھے سورج کے ٹھنڈے میٹھے زوال جیسا
وہ دشتِ تشنہ میں نم گلابوں کی شال جیسا
مجسمِ جاں ہوا مخاطب
سنو مری کائناتِ بےکل
سنو اگر تم ہو ساتھ میرے
تو تھام لو آکے ہاتھ میرے
سلگتے سورج کو چاند کر دوں
میں اس کی حدّت کو ماند کر دوں
میں صورتِ ابر تم پہ سایہ فگن رہوں گا
تمہارے خوابوں کو میں حقیقت کا روپ دوں گا
تمہارے جیون کے بجھتے رنگوں کو اپنی خوشبو کے رنگ دوں گا
سکوتِ دل کو میں دھڑکنوں کی ترنگ دوں گا
تمہاری آنکھوں کو روشنی کی امنگ دوں گا
سنو سہیلی
وہ آج میرا ہے صرف میرا
میں سر بسراسکے پیار میں ہوں
گلاب رت کے حصار میں ہوں