گلاب رت کے حصار میں ہوں
Poet: Aisha Baig Aashi By: Aisha Baig Aashi, karachiسنو سہیلی
وہ عہدِ رفتہ
دھواں دھواں تھا ہر ایک رستہ
نشانِ منزل کہیں نہیں تھا
امید آنگن میں دھندلکے تھے
مری نگاہوں میں خواب موسم ٹھہر چکے تھے
کہ جن کی تعبیر پر تھی بندش
بھٹک رہی تھی میں وحشتوں میں اذیتوں میں
وہیں ملا تھا سکون پیکر
گئی رتوں میں جو خواب سا تھا
جو شاعری کی کتاب سا تھا
سوال بن کر جواب سا تھا
وہ دھوپ رت میں سحاب سا تھا
سنو سہیلی
وہ ایک لمحے میں سال جیسا
مصوروں کے خیال جیسا
وہ جگنوؤں کی مثال جیسا
وہ روٹھے سورج کے ٹھنڈے میٹھے زوال جیسا
وہ دشتِ تشنہ میں نم گلابوں کی شال جیسا
مجسمِ جاں ہوا مخاطب
سنو مری کائناتِ بےکل
سنو اگر تم ہو ساتھ میرے
تو تھام لو آکے ہاتھ میرے
سلگتے سورج کو چاند کر دوں
میں اس کی حدّت کو ماند کر دوں
میں صورتِ ابر تم پہ سایہ فگن رہوں گا
تمہارے خوابوں کو میں حقیقت کا روپ دوں گا
تمہارے جیون کے بجھتے رنگوں کو اپنی خوشبو کے رنگ دوں گا
سکوتِ دل کو میں دھڑکنوں کی ترنگ دوں گا
تمہاری آنکھوں کو روشنی کی امنگ دوں گا
سنو سہیلی
وہ آج میرا ہے صرف میرا
میں سر بسراسکے پیار میں ہوں
گلاب رت کے حصار میں ہوں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






