یہ گمان تھا شاید کسی کو محبت ہے ہم سے
شاید کوئی بےقرار الجھتا ہے رات بھر
شاید کہنے سے ابھی ڈرتا ہے کہ ساتھ چل
ملنے کا جنوں سوچوں کی پری سب ساتھ چلی پر
کئی ہاتھوں میں بٹا تھا دلدار اپنا
نہ ہی پیار تھا، نہ ہی وہ یار اپنا
نہ وہ ہمسفر نہ ہی وہ ہمراز تھا
ایک ایسا ساز جو بےآواز تھا
کئی تاروں میں جٹا تھا وہ
کئی ہاتھوں میں بٹا تھا وہ
گمان تو گمان ہے
اسے کہاں پہچان ہے
اس کی اپنی ہی سوچ ہے
اس کی اپنی ہی زبان ہے
کہتا ہے
خوابیدہ آنکھوں پہ تبسم رہتی ہے
محبت ہمیشہ مجسم رہتی ہے