یہ تو گماں بھی نہ تھا کہ وہ بچھڑ جائے گا
سورج ایک اندھیر سی نگری میں اتر جائے گا
یہ جو ارماں سا سینے میں چھپا رکھا ہے
شام ہو گی تو جام میں جھلک جائے گا
صحرا کی تمازت میرے ہمراہ ہوئے پھرتی ہے
ایسے عالم میں بھلا کون اس بزم میں جائے گا
اندھیروں کی ٹھنی ہے اجالوں سے اب کے
اس کشمکش میں کوئی تو کشتی نکال جائے گا
تجھ کو چاہا ہے کچھ اس طرح اے صورت ماہ
تھاما جو نہ دل تو تھم جائے گا
دیکھ لینا ایک دن اپنی محبت کا کمال بھی
اشکوں سے چور زندگی سے گزر جائے گا
یہ تیری وحشتوں کا سفرایک نہ ایک دن ساگر
تجھے زندگی سے دور،دور کہیں لے جائے گا