گناہ کر کے محبت کا کوئے یار چلے
شوق آوارگی میں عاشق بے شمار چلے
ستم ظریفی کی محفل میں بولی لگ نہ سکی
نظر میں کھوٹ تھا پھر کیسے کاروبار چلے
آب رواں پہ بھی لرزہ تھا تند موجوں کا
وہ اپنی ہستی میں یوں ڈوبے کہ بیکار چلے
شہر آرزؤ میں بھی خوف تھا آندھیوں کا بہت
یوں توڑ کے اپنے گھروں کو سب معمار چلے