گوشہ تنہائی میں کچھ پل گزاریے
اور خانہ دل پہ لگے جالے اتاریے
نینوں کی کھڑکیوں کو بند کیجئے ذرا
اپنا وجود اپنے تخیل میں لائیے
اپنے ساتھ اپنے کچھ پل گزاریے
اور دل کے دریچوں کا مقفل اتاریے
دنیا کے شور و ہنگم سے دور جائیے
اور کبھی دشت و بیاباں کو فراریے
آئینہ نگاہ میں نہاں پیکر حسیں کا
آئینہ دل میں کبھی پر تو اتاریے
دنیا کے لیے تم نے کیا کیا نہیں کیا ہے
کوئی خواب کوئی فسانہ اب ہم واریے
عظمٰی جو فقط اپنا ظاہر سنوارتے ہیں
اب ان سے یہ کہو کہ باطن سنواریے