گُزر گیا جو زمانہ اُسے بُھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اُسے مِٹا ہی دو
کُھلے گا ترکِ تعلق کے بعد بابِ فنا
یہ ایک آخری پردہ بھی اَب اُٹھا ہی دو
رُکی رُکی سی ہَوا ہے تھکا تھکا ہے چاند
وفا کے دشت میں حیراں کھڑے ہیں راہی دو
گُزر رہا ہے جو لمحہ اسے امر کر لیں
میں اپنے خُون سے لکھتا ہُوں، تم گواہی دو
کسی طرح سے تغافل کا بابِ شک تو کُھلے
نہیں میں پیار کے قابل تو کُچھ سزا ہی دو
میں کائنات کو غم سے نجات دے دُوں گا
مِری گرفت میں اِک دِن اگر تباہی دو