ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گِلہ پھر ہمیں ہَوا سے رہے
میرے کچھ پَل مجھ کو دے دو باقی سارے دن لوگو
تم جیسا جیسا کہتے ہو سب ویسا ویسا ہو گا
میری بنیادوں میں کوئی ٹیڑھ تھی
اپنی دیواروں کو کیا الزام دوں
تھکن سے چُور پاس آیا تھا اس کے
گِرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں
تمہیں بھی یاد نہیں اور میں بھی بُھول گیا
وہ لمحہ کتنا حسیں تھا مگر فضول گیا
ان سے اب واپس خریدوں خود کو میں
لوگ جو مانگیں وہ اپنے دام دوں
اِک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈتا پھِرا اس کو وہ نگر نگر تنہا
آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ میری جان مجھ کو دھوکا دے
رات سر پر ہے اور سفر باقی
ہم کو چلنا ذرا سویرے تھا
سب ہَوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا
پہلے بھی کچھ لوگوں نے جَو بو کر گیہوں چاہا تھا
ہم بھی اس اُمیّد میں ہیں لیکن کب ایسا ہوتا ہے