گِن آنے لگی ہے محبت کے دیوانوں سے
صدائیں اُٹھ رہی ہیں دل کے بیابانوں سے
جال دُکھوں کے ہر سُو ہیں یہاں بِچھے ہوئے
بلائیں اُتر رہی ہیں ہر روز آسمانوں سے
کچھ تو ہمتِ زندگی کرو‘ اے قلبِ معصوم!
یوں اُٹھا نہیں کرتے اپنے مکانوں سے
اُجڑنے لگا ہے نشیمن تو پھر کیا ہوا
واسطہء موت لگائے رکھو تم آشیانوں سے
جی بھر کے ذہر میرے آگے رکھو‘ اے دہر!
تسکین نہیں ہوتی چھوٹے چھوٹے امتحانوں سے
تڑپتا مجھے کوئی کیا دیکھے گا آخر؟
میں تو تڑپ ہی رہا ہوں زمانوں سے
دنگے فساد ہیں بس عشق کی اصلیت
احساسِ محبت اُڑا دو ‘ عشق کے فسانوں سے