تو پھر یہ زندگی کا ہے کو ہے، قیامت ہے
اگر یہ طے ہے کہ توُ میری زندگی میں نہیں
ساحل پر انبوہ کھڑا چِلاّتا رہا
اِک بچّہ دریا میں گر کر ڈوب گیا
یہ گھٹائیں ہیں کہ وعدے ہیں تری رحمت کے
گِھر کے آئیں، مگر اِک پل نہ برسنے پائیں
آج کے دور کا انسان ہے فقط سوداگر
حُسن کا بھاؤ نہ طے ہو تو محبّت نہ کرے