وہ لفظ تھے کے خنجر تھے جو دل میں کھب گئے
زبان سے نکلے تیر تھے جو سینے میں اتر گئے
نازک بدن میرا شعلوں میں گھر کیا
وہ تیری لن ترانیوں سے آج مرگیا
شیشہء دل میرا کرچیوں میں بکھر گیا
سمیٹنے جو بیٹھی تو پوروں کو ہی چھلنی کر گیا
میرے یقین کی آج دھجیاں بکھر گئیں
ہر امید یاس میں دیکھو بدل گئی
بے موت مارنے والے کوئی شکوہ نہیں مجھ کو
یہ میرا مقدر تھا جس نے گھیرا ہے مجھ کو
کیا خوب تماشے دکھاتی ہے فرح یہ زندگی
کبھی ہنساتی ہے زندگی تو کبھی رلادیتی ہے زندگی