شبِ ہجراں کی طوالت سے گھبرا گیا ہوں میں
اس کے اندازِ محبت سے گھبرا گیا ہوں میں
تو سراب ہی سہی مگر نظر تو آ مجھ کو
کہ پیاس کی شدت سے گھبرا گیا ہوں میں
خزاں کی تلخیاں سہنے کو تنہا پتے چھوڑ گئے شجر کو
اپنوں کی ایسی ہی حالت سے گھبرا گیا ہوں میں
کوئی پہچان نہ سکے گا کسی کو بروز حشر
تیرے بعد تصور قیامت سے گھبرا گیا ہوں میں
خود کشی تو کسی مسئلے کا حل نہیں ہے شاد
یہ اور بات کہ خلوت سے گھبرا گیا ہوں میں