گھر میں رہتے ہوئے ڈر لگتا ہے
اب بیابان ہی گھر لگتا ہے
پاؤں رکھتا ہوں تو دھنستی ہے زمیں
سر اٹھاتا ہوں تو سر لگتا ہے
قتل و غارت ہے گلی کوچوں میں
شہر دہشت کا نگر لگتا ہے
ڈگمگاتی ہے دھماکوں سے زمیں
آسماں زیر و زبر لگتا ہے
زندگی یوں تو گزر جائے گی
کتنا مشکل یہ سفر لگتا ہے
غیر تو غیر ہمیں آج کے دن
اپنے ہم سایے سے ڈر لگتا ہے