گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے
میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے
یہ زخم زخم مناظر لہو لہو چہرہ
کہاں چلے گئے وہ لوگ ہنستے گاتے ہوئے
نہ جانے ختم ہوئی کب ہماری آزادی
تعلقات کی پابندیاں نبھاتے ہوئے
ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن
میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے
تمہارے آنے کی امید بر نہیں آتی
میں راکھ ہونے لگا ہوں دئیے جلاتے ہوئے