ھم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے ھاتھوں سے گر کے پتھر پر
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے
جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک کماں ٹوٹے
جیسے امید کی کرن کوئی
برگ موسم میں نا گہاں ٹوٹے
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقت تکمیل سے زرا پہلے
گردش وقت سے الجھ جائے
جیسے پیروں تلے زمیں سرکے
جیسے سر پر یہ آسماں ٹوٹے
جیسے اک شاخ پہ بھروسہ کیئے
اس پہ جتنے تھے آشیاں ٹوٹے
جیسے وحشت سے ھوش آجائے
جیسے تادیر میں دھیاں ٹوٹے
اب جو ریزہ ھوئے تو سوچتے ھیں
کس نے دیکھا ھے ٹوٹنا اپنا
ھم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے