سب خواب ریزہ ریزہ ہوئے ' بے اماں ہوئے
ہم خود غرض نہیں تھے ' مگر رائیگاں ہوئے
کن راستوں میں کھو گئی زندگی مری
کس رہگزر کی گرد مرے کارواں ہوئے
لمحوں کی گرد روح میں رچ بس کے رہ گئی
سب چہرے بجھ کے رہ گئے ' یکسر دھواں ہوئے
زندہ حقیقتوں کی طرح تھے جو کل تلک
وہ دیکھتے ہی دیکھتے اک داستاں ہوئے
دنیا تو گام گام پے نفرت بدوش تھی
تم بھی قدم قدم پے مرا امتحاں ہوئے
اس شہر بے خزاں کی بہاریں تمہیں سے تھیں
کیوں اپنا شہر چھوڑ دیا' بے نشاں ہوئے
جن راستوں پے ساتھ چلے تھے کبھی ظہیر
اب وہ ہمارے واسطے اک آستاں ہوئے