ھم نے پھر خواب سی آنکھوں میں جلائے آنسؤ
دل کو یوں روگ لگا ہر شام کو مہکائے آنسؤ
تجھے فرصت نہ ملی آ کے مجھے دیکھ تو لے
ھم نے پھر رات کی خاموشی میں بہائے آنسؤ
درد کی سولی پہ تھے لٹکے ھوئے جذبات میرے
یوں غم کی چادر میں بڑی دیر سے چھپائے آنسؤ
تیری بے وفائی کا جو صدمہ تھا وہ ھم سہہ نہ سکے
پھر یوں ٹوٹے کہ بڑی دیر تک تھے پچھتائے آنسؤ
دیکھنے والا بھی یہ سمجھے کہ ابھی ھوش میں ہیں
اپنی آنکھوں کے دریچؤں میں یوں سجائے آنسؤ
اور خود فریبی میں تیری چاھت کا سفر کیسے ھو
یوں میری ہستی کو بڑی دیر سے رلائے آنسؤ
غم بھلانے کے لیے تیری محفل میں چلا آتا ھوں
ساقی تیرے مہ خانے میں یوں کچھ دیر بہلائے آنسؤ