ھمسفر تھا وہ کہنے کو مگر ھمنوا نا تھا
دور تھا بہت دور، مجھ سے مگر جدا نا تھا
کچھ تو تھا اس کی آنکھوں میں جو ہم پڑھ نا پائے
شاید کہ وہ بے بسی تھی اس کی مگر خفا نا تھا
رنجشییں تھی غم تھا نفرت کی دیواریں تھیں
کہ وہ فاصلے تھے اس کے مگر بے وفا نا تھا
ان آنکھوں کے صحرا میں اس کی یاد کا بادل
ٹوٹ کر برسا تو بہت ہے مگر گرجتا نا تھا
پھر بھی گم ہو اس کی تمنا میں آج تک تنویر
وہ چاند تھا دل کے آیئینے میں مگر اترتا نا تھا