ہاتھ اُٹھا کے تیرے لیے آخری دُعا کر دی
حالتِ تنہائی میں اک حسیں خطا کر دی
جو دین ایمان تھی کسی وقت میں اپنا
ترک وہ میں نے دل سے وفا کر دی
سوچا تھا نہ کھولیں گے زباں ہم کبھی
تیرے ظلموں نے مگراب تو انتہا کر دی
جانے کس نرق میں تھے جیتے اب تک
آج سے اک نئی زندگی کی ابتدء کر دی
نہ چل پائے تم دو قدم بھی ساتھ میں
میں نے میری راہ تجھ سے جُدا کر دی
تجھے مشکل تھا بہت ہمارا ساتھ نبھانا
لو!ختم میں نے یہ تیری سزا کر دی