ہاتھ تھام کر چلنے کو سب تیار ملتے ہیں
جو بھی ملتے ہیں افسوس جفاکار ملتے ہیں
لا علم چلتے ہیں منزل کو پانے کے لیے
ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں جب خار ملتے ہیں
میری وفا پہ الزام غرض ہر ادا پہ الزام
میری بستی میں یا رب کیسے ادا کار ملتے ہیں
عہد وفا باندھ لیا آغاز محبت کر بیٹھے
وفا کے روپ میں بھی جیسے اغیار ملتے ہیں
کس کو سنائیں دکھڑا اپنی بے بسی کا
کس سے ملے کوئی جیسے دلدار ملتے ہیں
جب بچھڑنا ہی مقدر ٹھرا بہار میں
آج سر راہ کیوں ہم سے بار بار ملتے ہیں
عمر گزری ہے ثاقب یونہی صدائے وفا دیتے
اہل دل نہ پاؤ گے ہم سا مگر بہت سے فنکار ملتے ہیں